جو شخص قرآن شریف پڑھتا یا سنتا ہے‘ اس کے نامۂ اعمال میں ’’ایک حرف‘‘ کے بدلے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں‘ اور دس گناہ مٹادئے جاتے ہیں اور دس درجے بڑھائے جاتے ہیں‘ معنی سمجھ کر پڑھنے کی صورت اس کا دہ چند (دس گنا زیادہ) اجر ملتا ہے‘ اور نماز میں بیٹھ کر قرآن پڑھے یا سنے تو فی حرف پچاس نیکیوں کا ‘اور کھڑا ہوکر پڑھے یا سنے تو سو نیکیوں کا ثواب ملتا ہے‘ قرآن شریف کے کل حروف ایک کروڑ ستائیس ہزار ہیں‘ قرآن کے پڑھنے والو! دولت مفت لٹ رہی ہے لوٹ لو‘ جس قدر کہ تمہارے دامن میں گنجائش ہو۔
اگر آپ کو یہ آرزو ہے کہ تمام دنیا کے مسلمان جیسا بیت اللہ شریف جاتے ہیں اسی طرح آپ کی قبر کی زیارت کے لئے فرشتے چلے آئیں تو وہ حدیث سنو جو خطیب بغدادی اور ابو نعیم اصبہانی اور امام جلال الدین سیوطی رحمہم اللہ تعالیٰ نے روایت کی ہے کہ فرمایا جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ابو ہریرہ! قرآن سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ‘ قرآن پڑھتے‘ سنتے اور سناتے رہو گے تو فرشتے تمہاری قبر کی زیارت کو ایسے آئیں گے جیسے لوگ کعبہ کی زیارت کو آتے ہیں‘‘۔ اس سے زیادہ آپ اور کیا مرتبہ چاہتے ہیں؟ قرآن کعبہ سے بھی افضل ہے‘ کعبہ کی حفاظت ابابیل سے کرائی گئی‘ قرآن کی حفاظت خود ربّ جلیل فرماتے ہیں: ’’وَاِنَّا لَہ لَحَافِظُوْنَ‘‘۔
قیامت کے قریب قرآن شریف اور کعبۃ اللہ دونوں اس عالم سے اٹھالئے جائیں گے‘ دیکھنا یہ ہے کہ جب دنیا سے یہ دونوں اٹھالئے جائیں گے تو ان کو دنیا سے جدا کرنے والا کون ہوگا؟ اسی سے آپ کو ان دونوں کے مراتب کا فرق معلوم ہوسکے گا‘ ایک حبشی غلام کعبۃ اللہ کو ڈھاکر زمین کے برابر کردے گا‘ قرآن کو جبرئیل علیہ السلام اٹھاکر لے جائیں گے۔
سچ فرمائیے اس شان کا قرآن کیا ہم کو اسی لئے ملا ہے کہ ہم اس کو طاق میں رکھ چھوڑیں!! جو شخص خدائے تعالیٰ کی نعمت کی قدر نہ کرے کہئے اس کی کیا سزا ہے؟ آخرت کے علاوہ دنیا میں بھی ذلیل و خوار اور مختلف قسم کی مصیبتوں میں مبتلا کردیا جاتا ہے-
ائے قرآن کے چھوڑنے والو! اگر دنیا اچھی چاہتے ہو تو قرآن پر عمل کرو‘ ورنہ دنیا میں بھی عذاب آتا ہے‘ دنیا تو یوں برباد ہوجائے گی‘ ساتھ ہی ساتھ آخرت بھی‘ پھر ایک دن قبر میں جانا ہے‘ وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار مقدس تک دریچہ کھلے گا‘ قرآن شکایت کرے گا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ظالم نے دنیا میں مجھے چھوڑ دیا تھا‘ اس وقت کیا جواب دو گے۔
جب بندہ قرآن مجید پڑھنا چاہتا ہے تو شیطان ایڑی چوٹی کا زور لگادیتا ہے تاکہ وہ قرآن پڑھ نہ سکے‘ اس لئے کہ بِسْمِ اللّٰہِ کہتے ہی ذکرِ الٰہی کا‘ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِیْنَ سے شکر کا‘ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ سے امید کا‘ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ سے خوف کا‘ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِینُ سے اخلاص کا‘ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ سے دعا کا‘ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ سے پاک و مقدس ارواح کی پیروی کا دروازہ کھل جاتا ہے۔
تلاوت قرآن کے وقت باوضو قبلہ رُخ، خشوع و خضوع کے ساتھ سر کو نیچے جھکائے ہوئے رکھیں‘ معنی سمجھ سکتے ہوں تو معنوں کا خیال رہے‘ ورنہ ترجمہ والے قرآن شریف میں بامعنی تلاوت کیا کریں‘ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہ کر ان کے جلال و عظمت کا خیال رکھیں‘ اس لئے کہ تلاوتِ قرآن‘ اللہ تعالیٰ سے شرف ہمکلامی کا موقعہ ہے اور جس آیت کے پڑھنے سے رقت طاری ہو اسے بار بار پڑھیں‘ مقصود اعظم یہی ہے کہ قرآن مجید تدبر کے ساتھ پڑھا جائے‘ اس سے انشراح صدر حاصل اور دل منور ہوجاتا ہے۔
ایک ایک حرف صاف صاف طور پر ادا کرکے ایک پارہ پڑھنا ‘ جلد جلد کئی پارے پڑھنے سے بہتر ہے‘ اس لئے کہ پورے طور پر حروف ادا کرنے سے تلاوت کا نور زیادہ ہوتا ہے۔
رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: قرآن پڑھا کرو‘ قیامت کے دن وہ پڑھنے والوں کی شفاعت کرے گا۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جس گھر میں ہمیشہ قرآن مجید کی تلاوت ہوتی ہے اس گھر کی چھت پر نور کا خیمہ قائم ہوتا ہے اور اس خیمہ کو پہچان کر ملائکہ نازل ہوتے اور قرآن مجید سنتے ہیں‘ پڑھنے والا مرجانے کے بعد وہ خیمہ اٹھ جاتا ہے‘ فرشتے جمع ہوکر متوفی کی مغفرت اور بخشش کی دعا کرتے ہیں اور قرآن مجید اپنی روحانی صورت میں پڑھنے والے کے ساتھ قبر میں جاتا ہے‘ جب نکیرین سوال کے لئے زندہ کرتے ہیں اور اپنی ڈراؤنی صورت اور مشعل سی آنکھیں دکھانا اور بادل کی گرج جیسی آواز سنانا چاہتے ہیں تو قرآن مجید سامنے کھڑا ہوکر نکیرین کی مہیب صورت دیکھنے سے بچاتا ہے‘ جب نکیرین (منکر نکیر) اس کو درمیان سے ہٹنے کے لئے کہتے ہیں تو قرآن فرماتا ہے: میرا یہاں سے ہٹنا ناممکن ہے‘ جب متوفی نے عمر بھر مجھے نہیں چھوڑا تو میں ایسے وقت میں اسے کیسے چھوڑ سکتا ہوں‘ تمہیں جو حکم ہے پورا کرو اور میرے پس پشت سے سوال کرلو‘ میں آج اس کو جنت میں پہنچائے بغیر نہ جاؤں گا‘ تب نکیرین سوال کرتے ہیں تو قرآنِ پاک مردے سے فرماتا ہے کہ بس یہ آخری سختی ہے جو تجھے پیش آئی‘ نکیرین بعدِ سوال رخصت ہوجاتے ہیں‘ قرآن اس وقت قبر سے نکل کر آسمان پر پہنچتا اور اللہ تعالیٰ سے درخواست کرکے جنت کا نرم بچھونا اور ریشمی حلہ لے کر آن کی آن میں آجاتا ہے‘ اس وقت دس لاکھ مقرب فرشتے خلعت لے کر قرآن کے ساتھ قبر میں آتے ہیں اور متوفی کو نہایت آہستہ سے اٹھاکر جنت کا نرم بچھونا جس کے اندر سُرمے کی طرح مہین خالص مشک بھرا ہوتا ہے‘ بچھاتے اور جنت کا لباس پہناتے ہیں‘ پھر ایک ریشمی تکیہ سرہانے اور دوسرا پاؤں کے نیچے رکھ کر قبلہ کی طرف کروٹ بدلتے ہیں اور نور جنت کے دو چراغ ایک سرہانے اور دوسرا پائنتی روشن کرتے ہیں اور جنت کے پھولوں کا گلدستہ ناک کے پاس رکھ کر رخصت ہوجاتے ہیں‘ فرشتوں کے جانے کے بعد چار سو سال کی مسافت تک قبر فراخ ہوجاتی ہے اور اس کے بعد قرآن مجید کہتا ہے: یہ جنت کی کنجی اپنے پاس رکھو اور نہایت آرام سے سو رہو! اس کے بعد ہر صبح شام آکر ایسی خبر گیری کرتا ہے جیسے کہ ماں باپ بچوں کی نگہبانی کیا کرتے ہیں‘ اگر متوفی کی اولاد نیک ہو تو قرآن خوشخبری سناتا اور بدکار ہونے کی صورت میں ان کے لئے دعائے مغفرت کرتا ہے۔
بابا! کیا تم نے قرآن کی فضیلت سنی‘ ابھی موقع ہے تلاوت کیا کرو‘ ورنہ کل بجز حسرت کے کچھ فائدہ نہ ہوگا اور قرآن فرمائے گا: خرابی ہو تمہارے لئے تم نے دنیا میں مجھ کو نہ پڑھا اب آخرت میں میرے پاس نہ آؤ۔
از:حضرت ابوالحسنات محدث دکن رحمۃ
No comments:
Post a Comment