حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں کسی نے تحفے کے طور پر ایک پرندہ بھیجا جسے آپ نے قبول فرما لیا‘ کافی عرصے تک وہ پرندہ آپ کے پاس ایک پنجرےمیں بند رہا۔ ایک دن حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے پنجرے کی کھڑکی کھولی اور اس پرندے کو آزاد کردیا۔ لوگوں نے جب یہ دیکھا تو حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا کہ جناب اتنے عرصے تک تو آپ نے اس پرندے کو پنجرے کے اندر بند کرکے رکھا اور دیکھ بھال کرتے رہے۔ آج اچانک پنجرا کھول کر اسے آزاد کیوں کردیا؟ یہ سن کر حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے کہ آج اس پرندے نے مجھ سے کہا اے جنید! تم تو اپنے دوست احباب کی باتوں سے یوں لطف اٹھاؤ اور مجھے بے مونس و غمخوار ایک پنجرے میںیوں بند رکھو؟تو میں نے اسےآزاد کردیا مگر جب وہ پرندہ اڑا تو اس نے کہا ’’اے جنید! پرندے جب تک ذکرالٰہی میں مصروف رہتے ہیں اس وقت تک کسی بھی جال میں نہیں پھنستے لیکن جونہی وہ ذکرالٰہی سے غافل ہوتے ہیں تو فوراً قید میں مبتلا ہوجاتے ہیں‘‘ پھر وہ پرندہ کہنے لگا ’’میں تو ایک ہی مرتبہ ذکرالٰہی سے غافل ہوا تھا کہ اس کی سزا میں برسوں قید رہا‘‘ ہائے جنید! ان لوگوں کی قید کا زمانہ کتنا طویل ہوگیا جو مدتوں تک ذکرالٰہی سے غافل رہتے ہیں۔ اے جنید! میں آپ کے سامنے وعدہ کرتا ہوں کہ اب کبھی ذکرالٰہی سے غافل نہیں ہوؤں گا۔ یہ کہہ کر وہ پرندہ اُڑ گیا اس کے بعد بھی کبھی کبھی وہ پرندہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آتا تھا اور آپ کے دسترخوان پر بیٹھ کر اپنی چونچ سے کچھ کھاتا تھاجب حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوا تو آپ کے ساتھ وہ پرندہ بھی تڑپ کر زمین پر گرپڑا اور مرگیا۔ لوگوں نے اس پرندے کو بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ کیساتھ دفن کردیا۔ کچھ دنوں کے بعد کسی مرید نے حضرت کو خواب میں دیکھا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا رب العزت نے مجھے بخش دیا اور مجھ پررحم فرمایا اور کہا تو نے ایک پرندے پر اس کے ذکرالٰہی کرنے کی وجہ سے رحم کیا ہم تجھ پررحم فرماتے ہیں۔ اس واقعہ میں ان لوگوں کیلئے عبرت کا سامان موجود ہے جو ہر وقت ذکرالٰہی سے غافل رہ کر اپنی زبانوں سے لہو ولعب کے کلمات کی ادائیگی میں لگے رہتے ہیں۔ (انتخاب:کتابوں کی لائبریری میں‘بحوالہ: بستانِ اولیا
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں کسی نے تحفے کے طور پر ایک پرندہ بھیجا جسے آپ نے قبول فرما لیا‘ کافی عرصے تک وہ پرندہ آپ کے پاس ایک پنجرےمیں بند رہا۔ ایک دن حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے پنجرے کی کھڑکی کھولی اور اس پرندے کو آزاد کردیا۔ لوگوں نے جب یہ دیکھا تو حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا کہ جناب اتنے عرصے تک تو آپ نے اس پرندے کو پنجرے کے اندر بند کرکے رکھا اور دیکھ بھال کرتے رہے۔ آج اچانک پنجرا کھول کر اسے آزاد کیوں کردیا؟ یہ سن کر حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے کہ آج اس پرندے نے مجھ سے کہا اے جنید! تم تو اپنے دوست احباب کی باتوں سے یوں لطف اٹھاؤ اور مجھے بے مونس و غمخوار ایک پنجرے میںیوں بند رکھو؟تو میں نے اسےآزاد کردیا مگر جب وہ پرندہ اڑا تو اس نے کہا ’’اے جنید! پرندے جب تک ذکرالٰہی میں مصروف رہتے ہیں اس وقت تک کسی بھی جال میں نہیں پھنستے لیکن جونہی وہ ذکرالٰہی سے غافل ہوتے ہیں تو فوراً قید میں مبتلا ہوجاتے ہیں‘‘ پھر وہ پرندہ کہنے لگا ’’میں تو ایک ہی مرتبہ ذکرالٰہی سے غافل ہوا تھا کہ اس کی سزا میں برسوں قید رہا‘‘ ہائے جنید! ان لوگوں کی قید کا زمانہ کتنا طویل ہوگیا جو مدتوں تک ذکرالٰہی سے غافل رہتے ہیں۔ اے جنید! میں آپ کے سامنے وعدہ کرتا ہوں کہ اب کبھی ذکرالٰہی سے غافل نہیں ہوؤں گا۔ یہ کہہ کر وہ پرندہ اُڑ گیا اس کے بعد بھی کبھی کبھی وہ پرندہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آتا تھا اور آپ کے دسترخوان پر بیٹھ کر اپنی چونچ سے کچھ کھاتا تھاجب حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوا تو آپ کے ساتھ وہ پرندہ بھی تڑپ کر زمین پر گرپڑا اور مرگیا۔ لوگوں نے اس پرندے کو بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ کیساتھ دفن کردیا۔ کچھ دنوں کے بعد کسی مرید نے حضرت کو خواب میں دیکھا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا رب العزت نے مجھے بخش دیا اور مجھ پررحم فرمایا اور کہا تو نے ایک پرندے پر اس کے ذکرالٰہی کرنے کی وجہ سے رحم کیا ہم تجھ پررحم فرماتے ہیں۔ اس واقعہ میں ان لوگوں کیلئے عبرت کا سامان موجود ہے جو ہر وقت ذکرالٰہی سے غافل رہ کر اپنی زبانوں سے لہو ولعب کے کلمات کی ادائیگی میں لگے رہتے ہیں۔ (انتخاب:کتابوں کی لائبریری میں‘بحوالہ: بستانِ اولیا
No comments:
Post a Comment